علی رضا قتل کیس کا معمہ حل ... ویلڈن سرگودھا پولیس - تاحد نظر / عاطف فاروق
بھلوال / سرگودھا ( تاحد نظر : عاطف فاروق ) دو ماہ قبل بھلوال میں 11 سالہ تیسری جماعت کے معصوم طالب علم علی رضا عرف راجو کو زیادتی کے بعد بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارنے کا اندوہ ناک واقعہ بالآخر ٹریس کرلیا گیا ہے ۔ اس
اندھے اور سفاکانہ قتل کے واقعہ سے لے کر تفتیش کے مراحل تک غیر ذمہ دار رویے پر ایک ڈی ایس پی ، ایک ایس ایچ او سمیت دیگر پولیس اہلکاروں کی معطلی اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی جانب سے نوٹس لئے جانے کے بعد اسی پولیس نے پیشہ وارانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے واقعہ میں ملوث دونوں ملزمان کو گرفتار کرلیا ۔ڈی پی او سرگودھا کیپٹن ریٹائرڈ محمد سہیل چوہدری نے اس حوالے سے صحافیوں کو بتایا ہے کہ علی رضا عرف راجو (انڈے بیچنے والا) کا ذیادتی کے بعد قتل کیس پولیس نے حل کر لیاہے ۔ بھلوال میں انڈے بیچنے والے معصوم بچے کے سفاکانہ قتل کیس میں سرگودھا پولیس نے پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا ثبوت دیتے ہوئے اصل ملزمان کو گرفتارکر لیا ہے۔ ڈی پی او سرگودھا محمد سہیل چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ ایسے کیسز کو حل کرنا اور مجرموں تک پہنچنا پولیس کے لیے بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے جس میں قاتل کوئی سراغ نہ چھوڑے، ترقی یافتہ ملکوں میں بھی با آسانی ایسے قاتلوں کو گرفت میں لانا ایک معمہ بن جاتا ہے جس میں دشمنی، آلہ قتل،فنگر پرنٹ یا ایسا کوئی ثبوت نہ ملے جس سے ملزم کا سراغ لگایا جا سکے ، مگر ریجنل پولیس آفیسر ڈاکٹر محمد اختر عباس کی سربراہی میں سرگودھا پولیس کی پروفیشنل ٹیم نے اپنی نوعیت کے اس انوکھے قتل کیس کو نمٹا کر عوام میں پولیس کی ساکھ بحال کی اور بالخصوص ایک غریب والد کو انصاف فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی وقوعہ کے فوراً بعد پولیس اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے حرکت میں آئی اور چند مشکوک افراد کو گرفتار کیا گیا مگر اس طرح کے کیس میں پولیس کی زمہ داری اور بڑھ جاتی ہے کہ ایک تو معصوم قتل ہوا اور اس پر کسی بے گناہ کو سزا نہ ملے، دن رات سرگودھاپولیس قاتلوں تک پہنچنے کے لیے انتھک کاوشیں کرتی رہی، تمام افسران چین سے نہیں بیٹھے جن کے علاقے میں ایک معصوم بچے کا اس قدر بہیمانہ قتل ہوا، اس واردات میں نہ تو موبائل فون کا استعمال ہوا تھا جس سے لوکیشن ٹریس ہو سکے اور نہ ہی اغوا اور قتل کے موقعہ پے ایسا کوئی گواہ جو مجرموں کو پہچان سکے، نہ ہی فنگر پرنٹ ، آخری حل تھا صرف اور صرف ڈی این اے، مگر یہ ٹیسٹ فرانزک لیب میں ہی ممکن ہو سکتا تھا ڈی پی او سرگودھا محمد سہیل چودھری کی دن رات محنت اور ذاتی نگرانی میں انسپکٹر خدا بخش ایس ایچ او عارف چیمہ، فاروق حسنات اور تفتیشی فخر عباس پر مشتمل ٹیم نے ان تھک محنت اور ذہانت کی وجہ سے بھلوال کی عوام اور غریب باپ کو انصاف ملا اور قاتلوں کو گرفتار کیا گیا، دونوں ملزمان کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا گیا جسکا رزلٹ پولیس کو موصول ہو گیاہے جس کی بنیاد پر پکڑے جانے والے ملزمان ہی اصل مجرم ثابت ہوئے ہیں مقدمہ کو جلد میرٹ پر یکسو کیا جائے گاعوام سے اپیل ہے کہ اپنے آس پاس ایسے عادی مجرموں پر نظر رکھیں اور ایسے کسی بھی وقوعہ کی اطلاع پولیس کو دیں سرگودھاپولیس عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے پر عزم ہے ۔
اندھے اور سفاکانہ قتل کے واقعہ سے لے کر تفتیش کے مراحل تک غیر ذمہ دار رویے پر ایک ڈی ایس پی ، ایک ایس ایچ او سمیت دیگر پولیس اہلکاروں کی معطلی اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی جانب سے نوٹس لئے جانے کے بعد اسی پولیس نے پیشہ وارانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے واقعہ میں ملوث دونوں ملزمان کو گرفتار کرلیا ۔ڈی پی او سرگودھا کیپٹن ریٹائرڈ محمد سہیل چوہدری نے اس حوالے سے صحافیوں کو بتایا ہے کہ علی رضا عرف راجو (انڈے بیچنے والا) کا ذیادتی کے بعد قتل کیس پولیس نے حل کر لیاہے ۔ بھلوال میں انڈے بیچنے والے معصوم بچے کے سفاکانہ قتل کیس میں سرگودھا پولیس نے پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا ثبوت دیتے ہوئے اصل ملزمان کو گرفتارکر لیا ہے۔ ڈی پی او سرگودھا محمد سہیل چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ ایسے کیسز کو حل کرنا اور مجرموں تک پہنچنا پولیس کے لیے بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے جس میں قاتل کوئی سراغ نہ چھوڑے، ترقی یافتہ ملکوں میں بھی با آسانی ایسے قاتلوں کو گرفت میں لانا ایک معمہ بن جاتا ہے جس میں دشمنی، آلہ قتل،فنگر پرنٹ یا ایسا کوئی ثبوت نہ ملے جس سے ملزم کا سراغ لگایا جا سکے ، مگر ریجنل پولیس آفیسر ڈاکٹر محمد اختر عباس کی سربراہی میں سرگودھا پولیس کی پروفیشنل ٹیم نے اپنی نوعیت کے اس انوکھے قتل کیس کو نمٹا کر عوام میں پولیس کی ساکھ بحال کی اور بالخصوص ایک غریب والد کو انصاف فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی وقوعہ کے فوراً بعد پولیس اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے حرکت میں آئی اور چند مشکوک افراد کو گرفتار کیا گیا مگر اس طرح کے کیس میں پولیس کی زمہ داری اور بڑھ جاتی ہے کہ ایک تو معصوم قتل ہوا اور اس پر کسی بے گناہ کو سزا نہ ملے، دن رات سرگودھاپولیس قاتلوں تک پہنچنے کے لیے انتھک کاوشیں کرتی رہی، تمام افسران چین سے نہیں بیٹھے جن کے علاقے میں ایک معصوم بچے کا اس قدر بہیمانہ قتل ہوا، اس واردات میں نہ تو موبائل فون کا استعمال ہوا تھا جس سے لوکیشن ٹریس ہو سکے اور نہ ہی اغوا اور قتل کے موقعہ پے ایسا کوئی گواہ جو مجرموں کو پہچان سکے، نہ ہی فنگر پرنٹ ، آخری حل تھا صرف اور صرف ڈی این اے، مگر یہ ٹیسٹ فرانزک لیب میں ہی ممکن ہو سکتا تھا ڈی پی او سرگودھا محمد سہیل چودھری کی دن رات محنت اور ذاتی نگرانی میں انسپکٹر خدا بخش ایس ایچ او عارف چیمہ، فاروق حسنات اور تفتیشی فخر عباس پر مشتمل ٹیم نے ان تھک محنت اور ذہانت کی وجہ سے بھلوال کی عوام اور غریب باپ کو انصاف ملا اور قاتلوں کو گرفتار کیا گیا، دونوں ملزمان کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا گیا جسکا رزلٹ پولیس کو موصول ہو گیاہے جس کی بنیاد پر پکڑے جانے والے ملزمان ہی اصل مجرم ثابت ہوئے ہیں مقدمہ کو جلد میرٹ پر یکسو کیا جائے گاعوام سے اپیل ہے کہ اپنے آس پاس ایسے عادی مجرموں پر نظر رکھیں اور ایسے کسی بھی وقوعہ کی اطلاع پولیس کو دیں سرگودھاپولیس عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے پر عزم ہے ۔
زیادتی کے بعد قتل ہونے والا مقتول علی رضا بھلوال کے محنت کش گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ۔ علی رضا تیسری جماعت کا طالب علم تھا ۔ دیکھنے میں یہ چھوٹا سا بچہ تھا مگر اس کی سوچ بڑوں والی تھی ۔ اس کے والد عرصہ دراز سے بیمار تھے جس کی وجہ سے گھریلو حالات کچھ بہتر نہ تھے ۔ علی رضا کے والد محمد نذیر اپنی بیماری کی وجہ سے کبھی کام پر جاتے اور کبھی بیماری انھیں کام دھندہ کرنے کی اجازت نہ دیتی ۔ ایسے حالات میں علی رضا نے اپنے والد محمد نذیر سے اصرار کیا کہ وہ اُسے انڈے لے دیں ، وہ صبح کے وقت سکول جائے گا اور شام کو گرم انڈے فروخت کرے گا اور گھریلو معاملات میں ان کا ہاتھ بٹائے گا ۔ یوں علی رضا صبح کے اوقات میں سکول جاتا اور شام کو بھلوال کی گلیوں بازاروں میں گرم انڈے فروخت کرتا تاکہ گھر کا چولہا جلتا رہے ۔
یہ 14 نومبر 2017 ء کی تاریک رات تھی جب علی رضا کو اغواء کیا گیا اور ویران جگہ پر لے جاکر جنسی زیادتی کا شکار بنایا گیا ۔ ظالم درندوں نے جنسی زیادتی پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ معصوم بچے کا گلا دبا کر اُسے موت کے گھاٹ اتار دیا اور ویران جگہ پر ہی پھینک کر فرار ہوگئے ۔ اس رات علی رضا انڈے فروخت کرکے واپس نہ پہنچا تو اس کا والد محمد نذیر پریشانی کے عالم میں تھانہ بھلوال پہنچ گیا اور پولیس حکام کو اس معاملہ سے آگاہ کیا ۔ معصوم علی رضا عرف راجو کی لاش ویرانے سے ملنے کے بعد یہ خبر آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل گئی اور لوگ اس واقعہ پر احتجاج کرنے لگے ۔ علی رضا عرف راجو کی تدفین سے قبل اس کے والدین نے میت جلیبی چوک بھلوال پر رکھ کر پانچ گھنٹے احتجاج کیا اور ٹریفک بند رکھی ۔
اس واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی پی او سہیل چوہدری کی جانب سے خصوصی احکامات موصول ہونے پر بھلوال پولیس نے اپنی کوششیں تیز کرتے ہوئے چند مشکوک افراد کو گرفتار کیا ۔ پولیس نے اس سلسلہ میں اسی نوعیت کے عادی مجرموں کے گرد گھیرا تنگ کیا اور حتمی مجرم کو پکڑنے کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ حقیقی مجرم کو سزا دی جاسکے ۔ مقتول علی رضا کا والد محمد نذیر اس دوران خاموشی سے نہ بیٹھا اور انصاف کے لئے تھانے کے چکر لگاتا رہا ۔ وہ اپنے بیٹے کے قاتلوں کو عبرتناک سزا دلوانے کے درپے تھا ۔ اسی دوران قائد پاکستان مسلم لیگ ن میاں محمد نواز شریف کوٹ مومن آئے تو محمد نذیر اپنے بیٹے کے قاتلوں کو سزا دلوانے اور انصاف کے حصول کے لئے بینرز لکھواکر جلسہ گاہ جاپہنچا اور احتجاج کرتا رہا ۔ اگرچہ جلسہ میں بھیڑ اور سیکورٹی کی وجہ سے پولیس نے اسے قریب نہ جانے دیا تاہم اس کے احتجاج کی خبریں کئی ٹی وی چینلز نے نشر کیں جن پر ایکشن لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے محمد نذیر کو اپنے پاس لاہور بلوایا ۔ اس ملاقات کے دوران آر پی او سرگودھا اختر عباس اور ڈی پی او سرگودھا محمد سہیل چوہدری بھی روبرو تھے ۔ اس موقع پر محمد نذیر نے اپنی دکھ بھری روداد وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کو سنائی تو وہ بہت رنجیدہ اور برہم ہوئے ۔ انہوں نے موقع پر ڈی ایس پی بھلوال ، ایس ایچ او بھلوال اور متعلقہ تفتیشی افسران کو معطل کرنے کا حکم جاری کیا جس پر سرگودھا پولیس نے فوری ردعمل کا مظاہرہ کیا اور مذکورہ افسران کو معطل کرکے ان کی جگہ نئے افسران تعینات کئے گئے اور اس واقعہ میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لئے خصوصی انوسٹی گیشن ٹیمیں تیار کی گئیں جنہوں نے تکنیکی بنیادوں پر تحقیقات کو آگے بڑھاتے ہوئے دن رات ایک کرنے کے بعد بالآخر اصل ملزمان کو ٹریس کرکے گرفتار کرلیا ۔ گرفتار ہونے والے ملزمان میں ایک کا نام بابر جبکہ دوسرے کا نام محبوب بتایا گیا ہے ۔ ان میں سے ایک کو سرگودھا کے مضافاتی علاقے جبکہ دوسرے کو کراچی سے گرفتار کیا گیا ہے ۔ مذکورہ ملزمان نے اپنے ابتدائی بیان میں جرم قبول کرتے ہوئے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ معصوم علی رضا عرف راجو کو انہوں نے ہی زیادتی کے بعد قتل کیا ہے ۔
معصوم علی رضا عرف راجو کے اندوہ ناک قتل پر بھلوال سمیت پورے ملک کی سول سوسائٹی غم و غصہ کا شکار اور سراپا احتجاج تھی ۔ ملک بھر کے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سمیت سوشل میڈیا پر بھی ملزمان کی گرفتاری کے لئے پولیس پر بہت دباؤ ڈالا جارہا تھا ۔ ایسے وقت میں پولیس نے روایتی طریقہ تحقیق کی بجائے جدید اور تکنیکی طریقہ تفتیش اختیار کرکے ملزمان کی گرفتاری کو ممکن بناکر اہل علاقہ اور مقتول کے اہل گھرانہ کے دل جیت لئے ہیں ۔ اس واقعہ میں ملوث ملزمان کو کامیابی سے گرفتار کرنے کا سہرا سرگودھا پولیس کے ہونہار افسران کو جاتا ہے جنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ پولیس اگر پوری دلجمعی اور لگن کے ساتھ کام کرے تو جرائم کی سرکوبی ممکن ہے ۔ امید ہے سرگودھا پولیس آئندہ بھی قانون شکن عناصر کے خلاف گھیرا تنگ کرتی رہے گی اور سرگودھا کو امن و امان کا گہوارہ بنانے کے لئے اپنی توانائیاں صرف کرتی رہے گی ۔
نوٹ: یہ تحریر آپ کو کیسی لگی ؟ اس پر اپنی رائے نیچے دئیے گئے کمنٹس باکس میں ضرور دیں ، شکریہ ۔
نوٹ: یہ تحریر آپ کو کیسی لگی ؟ اس پر اپنی رائے نیچے دئیے گئے کمنٹس باکس میں ضرور دیں ، شکریہ ۔
Post Comment